ہمارے اجتماعات کی اصل روح تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آپس میں محبت و اخوت میں بڑھا جائے

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ ہمارے اجتماعات کی اصل روح تو یہ ہے جس کے لئے کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آپس میں محبت و اخوت میں بڑھا جائے ۔ علمی پروگرام اور مقابلے اس روح کے ساتھ ہونے چاہئیں کہ ہم نے ان باتوں سے کچھ سیکھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے ۔ بعض کھیلوں کے بھی پروگرام ہوتے ہیں تو اس لئے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے صحتمند جسم بھی ضروری ہے ورنہ نہ ہی انصاراللہ کی کھیل کود کی عمر ہے اور نہ ہی بائیس تیئس سال کی عمر کے بعد عموماً عورتیں کھیلوں میں کوئی زیادہ شوق رکھتی ہیں ۔ پس ورزشی مقابلوں کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنی جسمانی صحت کی طرف توجہ رہے اور صرف مقابلوں میں حصہ لینے والے نہیں بلکہ دوسرے بھی کم از کم سیر یا پھر ہلکی پھلکی ورزش سے اپنے جسموں کو چست رکھیں ۔ تو بہرحال ان اجتماعوں کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی دینی اور علمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ ہو۔ …انصار کی عمر تو ایک ایسی عمر ہے جس میں انسان کی سوچmatureہوتی ہے ، پختہ ہوتی ہے اور خود انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے اور ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ ایک تو پختہ عمر ہونا اور دوسرے ان بڑی عمر کے لوگوں کی مجلس کا نام انصاراللہ ہونا ہر ممبر کو، ہر احمدی کو جو چالیس سال سے اوپر ہے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس دلانے کے لئے کافی ہے ۔ یہ ذمہ داری یا ذمہ داریاں جن کو ایک ناصر کو ادا کرنا چاہئے ۔ ان کا خلاصہ انصاراللہ کے عہد میں بیان ہوگیا۔

پہلی بات یہ کہ ہر ناصر، ہر شخص جو مجلس انصاراللہ کا ممبر ہے اسلام کی مضبوطی اور احمدیت پر سچے دل سے قائم ہونے کی کوشش کرے اور اسلام کی مضبوطی کے لئے کوشش اپنے علم اور طاقت سے نہیں ہوسکتی ۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے اور تعلیم کے لحاظ سے کامل اور مکمل دین ہے ۔ اس میں کسی انسان نے تو کوئی اور مضبوطی پیدا نہیں کرنی ہے ۔ ہاں اپنے آپ کو اس سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشش کی ضرورت ہے تاکہ اس کامل اور مکمل دین کا ہم مضبوط حصہ بن سکیں ۔ اور یہ بات خدا تعالیٰ سے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی ۔ اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور انصاراللہ کے معیار سب سے اعلیٰ ہونے چاہئیں ۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق نہ ہو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں حکم دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجو ، اس کی طرف توجہ دو۔ پس یہ بہت ضروری چیز ہے ۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنا ہے ۔ جب یہ حق قائم ہوگا تو تبھی احمدیت پر ہم سچے دل سے قائم ہوں گے ۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تکمیل اشاعت اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور احمدیت پر سچے دل سے قائم ہونا تبھی ثابت ہوگا جب ہم اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے اپنے آپ کو انصاراللہ ثابت کریں گے ۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ستمبر 2016ء۔ الفضل انٹرنیشنل  21تا 27؍اکتوبر 2016ء صفحہ 5)